ایک پرانی انڈین مووی کا سین ہے جس میں فلم کی ہیروئئین پنچایت کے سامنے پیش تھی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے گاؤں کے کسی مرد سے ناجائز تعلقات قائم کئے اور نتیجے کے طور پر وہ ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہے۔
گاؤں والے اس لڑکی کو لاٹھیوں سے مار مار کر گاؤں سے نکالنا چاہتے تھے۔ پنچائیت بیٹھی، سب کا مؤقف سنا، لڑکی سے پوچھا تو اس نے اس ظالم شہری بابو کا محبت نامہ آگے دے دیا جس میں وہ وعدہ کرکے گیا تھا کہ شہر جا کر اپنے ماں باپ کو اس کا رشتہ لینے کیلئے بھیجے گا۔ لڑکی سے اس جواں مرد کا نام پوچھا لیکن وہ پردہ رکھ گئی۔
پنچائیت نے پھر فیصلہ سنا دیا۔
40 فیصد پنچائیت نے کہا کہ لڑکی بدکار ہے، اسے اپنے خاندان سمیت مار مار کر گاؤں سے نکال دینا چاہیئے۔
600 فیصد پنچائیت نے کہا کہ مانا کہ لڑکی بدچلن ہے، گناہگار ہے، لیکن ہمیں یہ بھی پتہ چلانا ہے کہ اس کی کوکھ میں یہ ناجائز بچہ کس کا ہے، تاکہ ہم اس بدکردار کو بھی سزا دے سکیں جو ہمارے گاؤں میں حرام کاری کرتا رہا۔ اس لئے جب تک لڑکی بچہ پیدا نہ کرلے، اسے ایک گھر میں قید رکھا جائے اور اس عرصے میں پتہ لگایا جائے کہ وہ حرامزادہ کون تھا جس نے گاؤں کی عزت سے کھیلا۔
آج کا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی پنچائیت کے فیصلے جیسا ہے۔
دو ججوں نے واشگاف الفاظ میں لکھ دیا کہ نوازشریف نااہل ہے۔ پٹواریوں کی سہولت کیلئے بتاتا چلوں کہ ' نا اہل ' کا لفظ جج اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ ملزم وزیراعظم ایک ' فاحشہ' اور ' طوائف ' کی طرح کرپٹ ہے اور وہ صادق و امین نہیں رہا۔
باقی کے 3 ججوں کے ذہن میں آیا کہ محض نااہلی کافی نہیں، کرپشن کے زرائع اور منی لانڈرنگ کی مکمل تحقیقات کرکے نوازشریف کی پوری فیملی کو بھی آگے جا کر گندا کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے انکوائری کمیشن بنا کر دو ماہ میں اس کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ لکھ دیا۔ پٹواریوں کی سہولت کیلئے ایک مرتبہ پھر وضاحت کردوں کہ ان 3 ججوں کی ورڈکٹ کا مطلب یہ ہے کہ اس 'فاحشہ اور کرپٹ عورت' کو گاؤں بدر کرنا ہی کافی نہیں، پتہ چلایا جائے کہ اس کے پیٹ میں یہ ناجائز بچہ کہاں سے آیا اور کس حرامزادے کا ہے۔
اربوں ڈالر بنانے کے بعد، 2 مرتبہ وزیراعلی اور 3 مرتبہ عزیراعظم بننے والا نوازشریف 68 سال کی عمر میں جب اس طرح ذلیل و خوار ہونا شروع ہوجائے تو سمجھ جائیں کہ اللہ ہے اور وہ برحق ہے۔ اللہ رسی دراز کرتا ہے اور پھر مناسب وقت پر اسے کھینچ لیتا ہے۔
نوازشریف کے گلے میں پڑی رسی بھی ہر روز تھوڑی تھوڑی کھینچی جارہی ہے اور اگلے دس مہینوں کے اندر اندر یہ سیاست سے کنارہ کشی نہ اختیار کرگیا جو چور کی سزا وہ میری
گاؤں والے اس لڑکی کو لاٹھیوں سے مار مار کر گاؤں سے نکالنا چاہتے تھے۔ پنچائیت بیٹھی، سب کا مؤقف سنا، لڑکی سے پوچھا تو اس نے اس ظالم شہری بابو کا محبت نامہ آگے دے دیا جس میں وہ وعدہ کرکے گیا تھا کہ شہر جا کر اپنے ماں باپ کو اس کا رشتہ لینے کیلئے بھیجے گا۔ لڑکی سے اس جواں مرد کا نام پوچھا لیکن وہ پردہ رکھ گئی۔
پنچائیت نے پھر فیصلہ سنا دیا۔
40 فیصد پنچائیت نے کہا کہ لڑکی بدکار ہے، اسے اپنے خاندان سمیت مار مار کر گاؤں سے نکال دینا چاہیئے۔
600 فیصد پنچائیت نے کہا کہ مانا کہ لڑکی بدچلن ہے، گناہگار ہے، لیکن ہمیں یہ بھی پتہ چلانا ہے کہ اس کی کوکھ میں یہ ناجائز بچہ کس کا ہے، تاکہ ہم اس بدکردار کو بھی سزا دے سکیں جو ہمارے گاؤں میں حرام کاری کرتا رہا۔ اس لئے جب تک لڑکی بچہ پیدا نہ کرلے، اسے ایک گھر میں قید رکھا جائے اور اس عرصے میں پتہ لگایا جائے کہ وہ حرامزادہ کون تھا جس نے گاؤں کی عزت سے کھیلا۔
آج کا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی پنچائیت کے فیصلے جیسا ہے۔
دو ججوں نے واشگاف الفاظ میں لکھ دیا کہ نوازشریف نااہل ہے۔ پٹواریوں کی سہولت کیلئے بتاتا چلوں کہ ' نا اہل ' کا لفظ جج اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ ملزم وزیراعظم ایک ' فاحشہ' اور ' طوائف ' کی طرح کرپٹ ہے اور وہ صادق و امین نہیں رہا۔
باقی کے 3 ججوں کے ذہن میں آیا کہ محض نااہلی کافی نہیں، کرپشن کے زرائع اور منی لانڈرنگ کی مکمل تحقیقات کرکے نوازشریف کی پوری فیملی کو بھی آگے جا کر گندا کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے انکوائری کمیشن بنا کر دو ماہ میں اس کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ لکھ دیا۔ پٹواریوں کی سہولت کیلئے ایک مرتبہ پھر وضاحت کردوں کہ ان 3 ججوں کی ورڈکٹ کا مطلب یہ ہے کہ اس 'فاحشہ اور کرپٹ عورت' کو گاؤں بدر کرنا ہی کافی نہیں، پتہ چلایا جائے کہ اس کے پیٹ میں یہ ناجائز بچہ کہاں سے آیا اور کس حرامزادے کا ہے۔
اربوں ڈالر بنانے کے بعد، 2 مرتبہ وزیراعلی اور 3 مرتبہ عزیراعظم بننے والا نوازشریف 68 سال کی عمر میں جب اس طرح ذلیل و خوار ہونا شروع ہوجائے تو سمجھ جائیں کہ اللہ ہے اور وہ برحق ہے۔ اللہ رسی دراز کرتا ہے اور پھر مناسب وقت پر اسے کھینچ لیتا ہے۔
نوازشریف کے گلے میں پڑی رسی بھی ہر روز تھوڑی تھوڑی کھینچی جارہی ہے اور اگلے دس مہینوں کے اندر اندر یہ سیاست سے کنارہ کشی نہ اختیار کرگیا جو چور کی سزا وہ میری
Comments
Post a Comment